اس کا ایک ہاتھ کٹا ہوا تھا
اس کا ایک ہاتھ کٹا ہوا تھا
ایک گرم رات میں اپنا ایک افسانہ ختم کرکے کتب خانے سےباہر نکلی تھی۔ کہ اچانک باغ کے زینے پر کسی کی قدموں کی آہٹ سنائی دی۔
’’اے معبود! یہ کون تھا۔ زوناش؟‘‘
میں نے خوف سے لرز کر اپنی بوڑھی حبشن کو آواز دی، مگر وہ بہری چوہیا اللہ جانے کدھر تھی کہ اس نے جواب نہ دیا۔ آپ جانتے ہیں کہ میں ہمیشہ سے بھوتوں کی کہانیاں پڑھنے کی شوقین ہوں۔ چنانچہ اس آہٹ کو سن کر دو قدم پیچھے اس خوف سے ہٹ گئی کہ کہیں کوئی بھوت یا پرانی روح نہ ہو۔ لیکن اتفاق سے اس وقت کھڑکی میں جو چھوٹا سا آئینہ آویزاں تھا اس میں مجھے آنے والے کی شکل نظر آگئی۔ اور جان میں جان آئی۔ وہ ہمارے پیارے جنرل ہارلی تھے۔ انھیں دیکھ کر میں بے تاب ہوگئی اور پردہ ہٹاکر دوڑتی ہوئی زینے پر نکل آئی۔
میرے ہارلی۔ بیساختہ مری زبان سے نکلا۔
’’اُف روحی۔۔۔‘‘ ہارلی کہنے لگے ’’تمہارا چہرہ تو لیمو کی طرح زرد ہوگیا ہے۔ کیا بات ہے میری ننھی؟‘‘
یہ کہہ کر ہارلی نے محبت سے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا۔ آہ وہ خوش گوار لمحے! اُس وقت انہوں نے ایک خوبصورت سیاہ اونچا ساٹن کا کوٹ پہن رکھا تھا۔ شام کی سفید ٹائی لگا رکھی تھی۔ ان کے رومال میں سے ہلکی ہلکی ’’قاہرہ میں اک شب‘‘ کی خوشبو آرہی تھی۔
میں نے تامل کرکے کہا ’’ہاں میں ڈر گئی تھی ہارلی، ابھی میں نے بھوتوں کا اک افسانہ لکھا تھا۔ اسے ختم کرکے باہر آرہی تھی کہ تمہارے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ میں نے یہی جانا کہ کوئی بھوت آگیا ہے۔ ان مشرقی ملکوں میں بھوت اکثر نظر آتے ہیں۔
یہ سن کر انہوں نے آہستہ سے میری پیٹھ ٹھونکی اور اپنی موٹی آواز میں ہنس پڑے۔ ’’یہ لڑکی تو پاگل ہوگئی ہے۔ دیکھو مری جان اب روحوں کے متعلق زیادہ نہ سوچا کرو۔ ورنہ کسی دن مالک نہ کرے، مالک نہ کرے تم بھی روح بن کر ہواؤں میں تحلیل ہوجاؤگی۔ دیکھو تو کتنی دُبلی ہوگئی ہو! جیسے ہلال۔
یہ سن کر میں نے اپنے کاہیدہ جسم پر نگاہ ڈالی۔ جو نیلی جارجیٹ میں واقعی موم بتی کے شعلے کی طرح نازک معلوم ہو رہا تھا۔
میں نے مسکراکر کہا ’’ہارلی میرا دبلاپن کوئی عارضی مرض نہیں ہے۔ تم جانتے ہو میں ہمیشہ کی نازک اندام واقع ہوئی ہوں۔ البتہ اب چند سال سے سیاحی کی مصیبتوں اور جنگلی کیمپوں کی زندگی نے مجھے کچھ حد سے زیادہ کا ہیدہ اور نازک بنا دیا ہے۔ اس پر مستزاد مشرقی صحراؤں اور تپتے ہوئے پہاڑوں کی گرمی! دیکھو تو آفتاب کو غروب ہوئے دو گھنٹے ہونے کوآئے مگر اب تک باغیچے میں گرم ہوائیں برابر چل رہی ہیں۔ انہیں ہواؤں نے مری صحت کا ناس کیا۔‘‘
’’کوئی دم میں رات کی خوشگوار ہوا شروع ہوجائے گی روحی۔ ان گرم ممالک میں آٹھ بجے کے بعد رات دل فریب اور موسم معتدل ہوجاتا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر انہوں نے اپنی کلائی کی گھڑی دیکھی۔ ’’لو-آٹھ بجنے میں چند ہی منٹ باقی ہیں۔ تم پسند کرو۔ تو میں تمہیں چہل قدمی کےلیے باہر لے چلوں؟‘‘
’’ہاں ہارلی۔ میں خود یہی چاہتی تھی۔ دن بھر کتب خانے میں بیٹھے بیٹھے طبیعت اکتا گئی ہے۔‘‘
یہ کہتے کہتے میں ہارلی کے ساتھ باغ کے زینے پر سے ہوتے ہوئے نیچے باغ میں اتر آئی۔
ہم دونوں باتیں کرتے ہوئے اک سڑک پر نکل آئے۔ ہلکی ہلکی چاندنی تھی۔ مگر برقی لیمپوں کی روشنی نے اسے نابود کردیا تھا۔ سڑک کے دائیں بائیں عظیم الشان عمارتوں کا ایک سلسلہ دور تک چلا گیا تھا۔
چند ہی منٹوں میں ہم لوگ ’’فارکیوز ہوٹل‘‘ کی شان دار عمارت تک پہنچ گئے۔ اس کی برقی روشنیوں سے آنکھیں چندھیائی جاتی ہیں۔ اس کے احاطے میں کہیں اندر دل فریب سروں میں بینڈ بج رہا تھا۔ اس کی رونق اور چہل پہل سارے شہر میں مشہور تھی۔
میں نے کہا: ’’ہارلی۔ مجھے یہ مقام بہت پسند ہے۔ میں جب بھی دوچار دن کے لیے یہاں آئی ہوں تو اسی ہوٹل میں ٹھیری ہوں۔ اس کے چپے چپے میں زندگی نظر آتی ہے۔‘‘
ہارلی نے نظر اٹھاکر عظیم الشان عمارت کو دیکھا۔ پھر بولے: اگر تم پانچ سال پہلے یہاں آتیں اور اتفاق سے نومبر کی ۲۱تاریخ کو یہاں پہنچتیں، تو تمہیں بڑا تعجب ہوتا۔ شاید وہشت سے چیخ پڑتیں۔‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘ میں نے حیران ہوکر پوچھا۔ ’’میں دہشت سے چیخ کیوں پڑتی؟‘‘
’’ہاں پیاری۔‘‘ ہارلی کہنے لگے: ’’یہاں ایک عجیب قصہ گزرا کرتا تھا۔ سال بھر تو یہاں ایسی ہی چہل پہل اور رونق ہواکرتی تھی۔ جیسی تم اس وقت دیکھ رہی ہو۔ مگر نومبر کی اکیسویں تاریخ کو یہ ہوٹل ایسا خاموش اور ویران ہوجاتا تھا جیسے ممی خانہ۔‘‘
’’اے اللہ! تیری پناہ ۔۔۔‘‘ میں نے وحشت سے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ ’’آخر سبب کیا تھا؟‘‘
’’روحی!یہاں اس تاریخ کی رات کو ایک ایسا دہشت ناک واقعہ ہوتا تھا جسے یاد کرکے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ تمہیں یہ سن کر حیرت ہوگی کہ اس خوف ناک قصہ کاخاتمہ میں نے اور مرے ایک فوجی دوست نے کیا تھا۔‘‘
میں حیران ہوکر ہارلی کا چہرہ تکنے لگی۔ ’’ہارلی تم تو الف لیلہ کی سی باتیں کرنے لگے ہو۔‘‘
’’ہاں ننھی‘‘ ہارلی نے وثوق کے لہجے میں کہا۔ ’’میں جھوٹ نہیں بولتا۔ تم میرے دوست کیپٹن فیروزی کو تو جانتی ہونا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
وہ بھی مرے ساتھ تھے۔ ہم دونوں نےاس قصہ کو اپنی آنکھوں سے گزرتےہوئے دیکھا۔ چلو روحی۔ سامنے والے باغیچے میں کسی کوچ پر بیٹھیں۔ وہاں تاریکی بھی ہے۔ تاروں کی چھاؤں بھی۔ ایسی جگہ قصہ بیان کرنے اور سننے کالطف ہے۔
یہ سن کر میں نےہارلی کا خوب صورت ہاتھ پکڑ لیا اور ایک روح کی سی تیزگامی سے تاریکی کی طرف بڑھی۔ بولی: ’’ہارلی! اگر یہ اتنا ہی دلچسپ اور خوفناک واقعہ تھا تو تم نے پانچ سال پہلے مجھے خط میں کیوں نہیں لکھا؟ تم بھی بڑے وہ ہو۔‘‘
روحی! میں تمہیں اُس وقت وہ خوفناک واقعہ بھلا کیسے لکھ سکتا تھا؟ تم شوراک کے ساحل پر اپنے والد کے ساتھ تھیں اور سخت علیل تھیں۔ مزید برآں میں تو اس واقعہ کو اب بھول بھی گیا تھا۔ اب تم نے اس ہوٹل کی چہل پہل کا ذکر کیا تو مجھے یاد آیا کہ یہی بارونق ہوٹل پہلے اک رات کے لیے کس طرح قبر کی طرح ویران ہوجایا کرتاتھا۔ سوچ کر اس وقت حیرانی ہوتی ہے۔‘‘
باتوں باتوں میں ہم دونوں سنترے اور نارنگی کے ایک باغ میں پہنچے اور کوچ پر بیٹھ گئے۔ رات کی ہوائوں میں ارغنوں کاساسریلا شور ملاہوا تھا۔ اور جھاڑیوں میں سے ’’ملکۂ شب‘‘ کی خوشبودار کلیو ں کی مہک آرہی تھی۔ ہائے وہ بچھڑی ہوئی رات! گئے ہوئے دنوں کی اک رات! جب کہ ایشیا کی خوش گوار گرمی میں تاروں بھرے شفاف آسمان کے نیچے ہارلی مرے قریب بیٹھے ہوئے وہ قصہ سنارہے تھے۔ اللہ وہ دن پھر کب آئیں گے؟ آئیں گے بھی۔
’’پانچ سال ہوئے۔‘‘ ہارلی کہنے لگے ’’میں کیپٹن فیروزی کے ساتھ یہاں آیا تھا۔ میں اسی وقت نیا نیا فوج میں داخل ہوا تھا روحی۔ ہم لوگ ۲۰نومبر کو یہاں پہنچے تھے اور چار دن ٹھیرنے کی نیت سے آئے تھے۔ مگر منیجر نے کہا کہ جناب عالی! آپ شوق سے چار دن یہاں ٹھیریں۔ پر اتنی بات ہے کہ کل ۲۱نومبر کی رات آپ کو کہیں باہر بسر کرنی پڑے گی۔ جب اس سے اس کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ ۲۱نومبر کی رات کو یہ ہوٹل خالی کردیا جاتا ہے۔ یہاں نہ مسافر رہتے ہیں نہ ہوٹل کے ملازم۔ بات یہ ہےکہ یہاں کئی سال قبل ایک مظلوم عورت کو کسی نے نہایت بے دردی سے قتل کیا تھا۔ یہ عورت اپنے قتل کی تاریخ کواپنی قبر سے نکلتی ہے اور ہوٹل کے تمام کمروں کی گشت لگاتی ہے اور اپنا انتقام لینا چاہتی ہے۔‘‘
یہ سن کر فیروزی نے کہا ۔ ’’ایک عورت، خصوصاً ایک مظلوم مقتول عوت سے توہرگز نہیں ڈرنا چاہیے۔‘‘
دوسرے دن صبح ہی ہم لوگ شہر سے باہر شکار کے لیے چلے گئے۔
واپسی میں ہمیں کچھ دیر لگی۔ گیارہ بج گئے تھے۔ جب ہم ہوٹل کے احاطے میں پہنچے تو ہر طرف قبرستان کی سی اداسی اور ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ کسی ملازم کا پتہ نہ تھا۔ صرف سفید چاندنی اونچے اونچے شاہ بلوط اور امرود کے درختوں کوآغوش میں لیے ہوئے تھی۔ رات کی خاموشی میں درختوں کے پتے اک عجیب پراسرارآسیبی انداز سے بچنے لگتے تھے۔
اس وقت دفعتاً مجھے اور میرے دوست کو یاد آگیا کہ آج ۲۱نومبر کی رات ہے۔
’’گیارہ بج گئے ہیں ہارلی‘‘ کیپٹن فیروزی نے مجھ سے کہا ’’اب یہاں سے جانا فضول ہے۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے برآمدے میں جاکر روشنی کابٹن دبایا اور ایک آرام کرسی پر لیٹ گیا۔ میں نے بھی اس کی تقلید کی۔ ہم دونوں بے حد تھک گئے تھے روحی۔ دفعتاً میرے غسل خانے کا پیچھے کا دروازہ پٹ سےکھل گیا۔
ہارلی سے اتنا سن کو خوف سے مرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ میں نےتاریکی کی طرف لرز کر دیکھا۔ پھر ہارلی کے بازو سے لگ کر بیٹھ گئی ’’بلند آسمان ہارلی‘‘ میں نے کانپ کر کہا: ’’کتنا خوفناک واقعہ ہے!‘‘
’’ابھی تو کچھ نہیں پیاری۔ اس کی ہیبت اور بڑھتی جائے گی۔ تم میرے اور قریب ہو بیٹھو روحی۔ ننھی سی لڑکی ڈر جاؤگی۔‘‘
یہ کہہ کر ہارلی نے مسکراکر مجھے اور قریب کھینچ لیا۔ ان کے رومال سے ہلکی ہلکی خوشبو آرہی تھی۔ آہ آج بھی جب کبھی ’’قاہرہ میں اک رات‘‘ کی خوشبو آتی ہے تو مجھے وہ رات ، وہ بچھڑی ہوئی رات یاد آجاتی ہے۔
’’تھوڑی دیر میں ہم نے دیکھا کہ غسل خانے میں سے کچھ آواز آرہی ہے۔‘‘ دفعتاً کیپٹن فیروزی نے گھبراکر مجھ سے کہا:ہارلی! ہارلی وہ دیکھو غسل خانے کے دروازے میں کیا چیز ہے؟‘‘
میں نے ڈر کرسر پھیرا اور غسل خانے کی طرف دیکھا۔ اک عورت سفید چادر لپیٹے ہوئے کھڑی تھی، اس کاایک ہاتھ کٹا ہواتھا، تھوڑی دیر ہم نے مبہوت ہوکر اسے دیکھا۔ میری آنکھیں بندہو ہوجاتی تھیں۔ اور خوف سے عجیب حالت تھی۔
تھوڑی دیر میں عورت نے ہاتھ کےاشارے سے ہمیں اپنی طرف بلایا۔ اور بلاتے ہوئے غسل خانے کا زینہ طے کرکے آہستہ آہستہ نیچے باغ میں چلی گئی۔ مڑ مڑ کر ہمیں دیکھ رہی تھی۔ ہم دونوں اس کے پیچھے اس سے کسی قدر فاصلے پر چلے جارہے تھے۔ آخر امرود کے ایک درخت کے نیچے جاکر وہ چپ چاپ کھڑی ہوگئی۔ درخت کے نیچے اک پھاوڑاپڑا ہوا تھا۔ عورت نےپھاوڑے کی طرف اشارہ کیا۔ میرے دوست نے بادل ناخواستہ اسے اٹھالیا اور عورت کی طرف دیکھنے لگا۔ جب عورت نےاچھی طرح اطمینان کرلیا کہ پھاوڑا اٹھا لیا گیا ہے تو ہاتھ کے اشارے سے اپنے پیچھے بلاتی ہوئی وہ باغ کے اس حصے میں پہنچی جہاں کنواں تھا۔ وہاں ایک ننھے سے درخت کے نیچے جاکر ساکت و جامد کھڑی ہوگئی۔ اور ہمارا انتظار کرنے لگی، جب ہم پہنچے تو اس نے نہایت عاجزانہ انداز سے زمین کھودنے کااشارہ کیا۔ وہ نوجوان اور خوب صورت تھی۔ چہرے پر مظلومیت برس رہی تھی۔ چاند کی زرد روشنی میں اس کاچہرہ نہایت دردناک معلوم ہوتا تھا۔
میرے دوست نے زمین کھودنی شروع کی۔ جب تھک کر فیروزی دو منٹ کے لیے کھڑا ہوجاتا تو عورت عجیب بے قراری کے انداز میں اسے بار بار جلد زمین کھودنے کا اشارہ کرنے لگتی۔
کھودتے کھودتے دفعتاً فیروزی رُکا ’’ہارلی پھاوڑا کسی چیز سے ٹکراتا ہے! اب مجھ سے کھودا نہیں جاتا۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے پھاوڑا مجھے دے دیا۔ میں نے کوٹ اتارکر اسے دیا اور پھر زمین کھودنے لگا۔ ایک لمبوترا پتھر اندر سے نکالا۔ میں نے اسے اٹھاکر باہر پھینکا۔ پھینکنا تھا کہ عورت نے فوراً دوڑ کر اسے اٹھالیا۔
’’یہ پتھر تو نہیں معلوم ہوتا۔‘‘ مرے دوست نے کہا۔ ہڈی معلوم ہوتی ہے۔
ابھی میں کوئی جواب بھی نہ دینے پایا تھاکہ عورت آہستہ آہستہ کنوئیں کی دوسری طرف جانے لگی اور اشارہ سے ہمیں اپنے پیچھے بلانے لگی۔
’’لو اور کیا مصیبت آنے والی ہے؟‘‘ فیروزی نے کہا۔
عورت کنوئیں کے پرلی جانب جاکر کھڑی ہوگئی اور پھر وہاں زمین کھودنے کا اشارہ کیا۔
میں نے پھر کھودنا شروع کیا۔ اب تو کھودتے کھودتے میں تھک گیا تھا۔ جب دو فٹ سے زیادہ گہرائی کا سوراخ بن گیا تو عورت نے اشارے سے منع کیا۔ میں رُک گیا۔ ہم تینوں خاموش کھڑے تھے۔ عورت دوسری طرف پھر کر کسی کام میں مصروف تھی۔ وہ کیا کام تھا؟ تم سن کر لرز جاؤگی۔۔۔جو لمبوتری ہڈی زمین سے نکلی تھی اسے وہ اپنےکٹے ہوئے ہاتھ پر جوڑ رہی تھی۔ گویا وہ اس کا ہی ہاتھ تھا! جب ہاتھ دوسرے نصف سے جڑ گیا تو اس نے پلٹ کر ہم دونوں کو دو لمحے دیکھا۔ پھر چپ چاپ اپنی قبر میں اتر گئی اور ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوگئی۔ہمارے ہوش و حواس گم تھے۔ ہم نےاس کی قبر میں مٹی بھردی۔ اس کے بعد اس ہوٹل میں سنا ہے کہ کبھی ۲۱نومبر کی رات خوفناک نہیں گزری۔